Book Details | |
ISBN | 978-969-652-129-7 |
No. of Pages | 576 |
Format | Hardcover |
Publishing Date | 2020 |
Language | Urdu |
Translator | Huma Anwar |
نوبل انعام یافتہ ترک ادیب اورحان پاموک کا زیرنظر ناول ”خانۂ معصومیت“ ان کے 2008ءمیں شائع شدہ ناول "The Museum of Innocence" کا اردو ترجمہ ہے۔یہ نوبیل انعام جیتنے کے بعد اُن کا لکھا گیا پہلا ناول ہے۔
محبت کی یہ ناقابل فراموش داستان ”خانۂ معصومیت“ داستانوی، حسین اور فسوں خیز شہر استنبول کے پس منظر میں بیان کی گئی ہے۔1970ءاور 1980ءکے دہائی کے استنبول، اس کے گلی محلوں، اس کے باسیوں، اس کے موسموں، اس کے خستہ حال چوبی گھروں اور محل سراﺅں کی جگہ سر اٹھاتی اپارٹمنٹ بلڈنگوں اور اس شہر کی خصوصاً اپر کلاس کی سماجی زندگی کی کہانی۔ زیرنظر ناول میں اسی کچھ روایتی کچھ مغربی استنبول کی سماجی اور ثقافتی تصویرکو اگلے زمانوں کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے۔اورحان پاموک کا یہ ناول،تاریخ اور سماجیات کے د ائرہ کار سے باہر، اس زمانے کو محفوظ کرنے کی ایک نایاب تخلیقی کوشش ہے۔ ایک ناول نگار کے طور پر یہ فریضہ صرف اورحان پاموک ہی ادا کرسکتے تھے جنہوں نے اپنے شاہکار ناول ”سرخ میرا نام“ میں پانچ سو سال قبل کے منی ایچرمصوروں کو کمال مہارت سے پیش کیا۔
بورژوا روایتوں سے متصادم عشق کی یہ کہانی، جس کا مرکزی کردار کمال پہلے سے اپنے طبقے کی ایک لڑکی سبل سے منگنی کرچکا ہے، اب اپنی نوعمر مگر نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی کزن فسون کے حُسن کا اسیر ہوجاتا ہے جو ایک بوتیک میں ملازم ہے۔ اپنی رومانوی وابستگی کا علاج وہ پُراسرار طور پر اپنی محبوبہ سے وابستہ اور اس کی یادوں سے معمور چیزوں میں پاتا ہے۔ اپنی طویل جستجو اور محبت کے الم ناک انجام کے بعد، کمال جو خود کو ثقافتی محقق قرار دیتا ہے، انہی اشیا کو لے کر اپنی حسین اور نوجوان محبوبہ کی یاد میں ایک میوزیم بناتا ہے۔میوزیم جہاں اس کے بقول زمان کو مکان میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
محبت کی یہ ناقابل فراموش داستان ”خانۂ معصومیت“ داستانوی، حسین اور فسوں خیز شہر استنبول کے پس منظر میں بیان کی گئی ہے۔1970ءاور 1980ءکے دہائی کے استنبول، اس کے گلی محلوں، اس کے باسیوں، اس کے موسموں، اس کے خستہ حال چوبی گھروں اور محل سراﺅں کی جگہ سر اٹھاتی اپارٹمنٹ بلڈنگوں اور اس شہر کی خصوصاً اپر کلاس کی سماجی زندگی کی کہانی۔ زیرنظر ناول میں اسی کچھ روایتی کچھ مغربی استنبول کی سماجی اور ثقافتی تصویرکو اگلے زمانوں کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے۔اورحان پاموک کا یہ ناول،تاریخ اور سماجیات کے د ائرہ کار سے باہر، اس زمانے کو محفوظ کرنے کی ایک نایاب تخلیقی کوشش ہے۔ ایک ناول نگار کے طور پر یہ فریضہ صرف اورحان پاموک ہی ادا کرسکتے تھے جنہوں نے اپنے شاہکار ناول ”سرخ میرا نام“ میں پانچ سو سال قبل کے منی ایچرمصوروں کو کمال مہارت سے پیش کیا۔
بورژوا روایتوں سے متصادم عشق کی یہ کہانی، جس کا مرکزی کردار کمال پہلے سے اپنے طبقے کی ایک لڑکی سبل سے منگنی کرچکا ہے، اب اپنی نوعمر مگر نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی کزن فسون کے حُسن کا اسیر ہوجاتا ہے جو ایک بوتیک میں ملازم ہے۔ اپنی رومانوی وابستگی کا علاج وہ پُراسرار طور پر اپنی محبوبہ سے وابستہ اور اس کی یادوں سے معمور چیزوں میں پاتا ہے۔ اپنی طویل جستجو اور محبت کے الم ناک انجام کے بعد، کمال جو خود کو ثقافتی محقق قرار دیتا ہے، انہی اشیا کو لے کر اپنی حسین اور نوجوان محبوبہ کی یاد میں ایک میوزیم بناتا ہے۔میوزیم جہاں اس کے بقول زمان کو مکان میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔