یہ اہم کتاب تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ کتاب میں ملک کی تاریخ کے ایک معجزے
پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ میاں عبدالوحید، سابق آرمی چیف و صدر جنرل ضیاالحق
کے فرسٹ کزن ہیں۔ میاں صاحب کے سسر بٹالہ کے مشہور صنعت کار جناب سی ایم
لطیف، بٹالہ انجینئرنگ کمپنی BECO کے مالک تھے جو غیر منقسم ہندوستان میں
ایک اعلیٰ درجہ کی فیکٹری تھی۔ میاں وحید سفارت کار ہیں، پنجاب یونیورسٹی
سے ایم اے اکنامکس اور امریکہ کے مشہور فلیچر سکول آف لاء اینڈڈپلومیسی
اور ہارورڈ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ شروع میں پولیس سروس میں ملازمت کی۔ صوبہ
سرحد میں ڈی آئی جی رہے، بعد میں سفارتی زندگی کا آغاز کیا اور 27برس کی
مدت کے دوران دنیا کے بہت سے ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ آپ کی اہم
تعیناتیاں بطور سفیر جرمنی اور اٹلی میں تھیں۔ آپ نے وزارتِ خارجہ سے
استعفیٰ دے کر الیکشن میں حصہ لیا تھا اور 1990ء اور 1997ء میں قومی اسمبلی
میں نمائندگی کی تھی۔ آپ 1997ء میں قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے
خارجہ امور کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔
یوں تو پوری کتاب ہی نہایت دلچسپ تاریخی واقعات سے پُر ہے لیکن میں خاص
طور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر لکھے گئے باب اہم ہے۔میاں عبدالوحید نے
اپنی کتاب کے 12-A باب میں پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی کچھ تفصیلات بیان
کی ہیں۔ ہندوستان کے 18مئی 1974ء کے ایٹمی دھماکے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر
خاصے پریشان اور شش و پنج میں تھے اور آخرکار ستمبر 1974ء کوانہوں نے
سفیر، فرشتہ خصلت اور نہایت محب وطن جناب جے جی خراس کی معرفت بھٹو صاحب کو
خط لکھا تھا کہ اگر پاکستان نے فوراً جوابی اقدامات نہیں کیے تو پاکستان
کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ کہ میں اس سلسلے میں رہنمائی کرسکتا
ہوں۔ میاں صاحب نے اس خط کی آمد اور بعد کے واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔