بابِ ارغوان
- وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے
- Woh Jo Tareek Raahon Mein Maray Gaye
- Author: Oya Baydar
- Availability: In Stock
-
Rs. 1,780
Baab e Erghuvan
Book Details | |
ISBN | 978-969-652-228-7 |
No. of Pages | 504 |
Format | Hardcover |
Publishing Date | 2024 |
Language | Urdu |
Translator | Huma Anwar |
’’بابِ ارغوان‘‘، اویابیدر کے ناول Erguvan Kapısı (The Gate of Judas Tree) کا اردو ترجمہ ہے جس پر انہیں جودت قدرت ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ اویا بیدار کے لطیف اسلوب سے تشکیل پانے والا زیر نظر ناول ’’بابِ ارغوان‘‘ ایک منفرد ادبی کارنامہ ہے۔ یہ ناول سماجی تبدیلیوں سے بھری ترکی کی حالیہ تاریخ میں گویا ادبی سفر ہے۔ ایک شان دار ناول جو ترکی کے پچھلے تیس برس کے سیاسی اور سماجی پینوراما کو ادبی نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ ناول ہمیں ترک سماج کی اُن پرتوں سے متعارف کرواتا ہے کہ جن سے ہمارے عوام تو کیا دانشور حلقے بھی نابلد ہیں۔ ناول کا مرکزی کردار استنبول کا داستانوی شہر ہے، اور ایک نہیں دو استنبول، غریبوں کا اور امیروں کا، لیکن دنیا کے دوسرے شہروں کے برعکس یہاں دونوں شہر ایک دوسرے کے بالکل ساتھ ساتھ آباد ہیں، ایک دوسرے میں پھنسے ہوئے۔ ایک استنبول دوسرے کے عین بیچ میں موجودہے۔ایک ہی وقت میں، وہ ایک دوسرے میں الجھے ہوئے ہیں۔ باسفورس کی پہاڑیوں پر حویلیاں، ولاز اور پُرتعیش مکانات سمندر کے رخ پر ہیں، جب کہ دوسری طرف کی ڈھلانوں پر کچی آبادیاں اور جھونپڑپٹیاں، کوڑے کے ڈھیر اور چھپر ہیں۔ ’’بابِ ارغوان‘‘ استنبول میں چار مختلف کرداروں کی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی زندگیوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ تھیو، اُلکو، ڈیرن اور کریم علی جو سماجی انتشار کے زیر اثر دَور میں ترکی کے مختلف طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اویا بیدر، جمہوریہ ترکیہ کی جرأت مند ترقی پسند ایکٹوسٹ اور مقبولِ عام ترک ادیبہ ہیں۔ وہ اپنی نوجوانی ہی سے قلم اور عمل کے ذریعے اس بائیں بازو کی طبقاتی جدوجہد کا حصہ ہیں جس نے ترکی کی سیاست اور سماج پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اویا بیدر نے سکول کے زمانے سے ان نظریات کا پرچم اور قلم اٹھالیا تھا۔ ایک کم سن لڑکی کے قلم سے لکھی گئی تحریر نے ترکی میں ارتعاش پیدا کردیا اور پھر اویا بیدر عمل و قلم کے اس کارواں کی مسافر بن گئیں۔ اس دوران انہوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں اور جلاوطنی کا کرب بھی سہا۔ کمیونسٹ ہونے کی بنا پر 1980ء میں ترکی کے تیسرے مارشل لاء کے آغاز پر ان کی ترک شہریت سلب کرلی گئی اور وہ بارہ برس تک برلن سمیت کئی یورپی شہروں اور ماسکو میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرتی رہیں۔